26 دسمبر 2020 شام 5 بجے کرسمس کی چھٹیوں میں، میں جاگنگ کرکے گھر واپس آیا تو گھر والوں نے اطلاع دی کہ ابھی ابھی امی جان کا فون آیا ہے کہ حسن اختر صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں – حسن اختر صاحب سے میری پہلی ملاقات دسمبر 1982 میں ہوئی تھی ، جب میں پہلی بار ناروے آیا تھا- چاچا حسن اختر صاحب اپنی فیملی کے ممبر ہونے کے ساتھ شروع ہی سے میرے اچھے دوست بن گئے –
چاچا حسن اختر صاحب کا تعلق
ضلع روالپنڈی کی تحصیل کلرسیداں سے تھا – وہ 1975 میں نوعمری میں ہی اپنے بڑےتایازاد بھائی حاجی محمد سلیمان صاحب کی دعوت پر ناروے آئے تھے – پھر آخر دم تک یہاں ہی رہے –
پہلی ملاقات میں ہی حسن اختر صاحب کے اور میرے خیالات ، مشاغل ایک جیسے لگے- حسن اختر صاحب ہماری طرح پاکستان کی سیاست میں دلچسپی رکھنے کے ساتھ ، پاکستان کے قومی کھیل ہاکی میں بڑی دلچسپی رکھتے تھے – وہ پاکستان کے ہاکی کے میچوں کی کمنٹری ریڈیو پر بڑے غور سے سنتے تھے – ہاکی کے بارے میں انہیں کافی معلومات تھی – چند دنوں بعد معلوم ہوا کہ چاچا حسن اختر صاحب نے چند دوسرے پاکستانی تارکین وطن دوستوں کے ساتھ مل کر ہاکی کی ٹیمیں بنائی ہوئی اور وہ آپس میں باقاعدہ طور پر ہاکی کے میچز کھیلتے ہیں – چاچا حسن فل بیک پوزیشن کے بہترین کھلاڑی تھے – انہوں نے ناروے میں ہاکی اوسلو ہاکی کلب سے شروع کی ، پھر بعد میں آکر ہاکی کلب سے 80 ، 90 کی دھائی میں ممبر بن کر ناروے اور دوسرے یورپین ممالک میں میچز کھیلتے رہے – ہاکی میں اپنے سنجیدہ روپے، توجہ سے ٹریننگ اور میچز کھیلنے کی وجہ سے ہاکی کے سب کھلاڑی انہیں چاچا آف ہاکی کہتے تھے – اپنی وفات تک وہ آکر ہاکی کلب کے ہی ممبر رہے – ہاکی کھیلنے کے ساتھ ساتھ وہ ناروے میں والی بال کے ریفری بھی رہے اور نارویجین والی بال لیگ کے میچز میں ریفری کے فرائض سرانجام دیتے رہے ، وہ نارویجین والی بال لیگ کے باقاعدہ رجسٹر ریفری تھے –
ہاکی کے ساتھ ساتھ وہ ناروے میں پہلے پاکستانی پریس پرنٹر ڈپلومہ ہولڈر بنے، انہوں نے باقاعدہ طور پر نارویجین ٹکینکل کالج سے پرنٹر کی تعلیم حاصل کی ڈپلومہ حاصل کیا – چند سال مختلف پرنٹر کمپنیوں میں کام کرنے کے بعد انہوں نے 1984 میں اپنی کمپنی حسن پرنٹر کی بنیاد رکھی ، وہ نارویجین مارکیٹ کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ 80 کی دھائی سے لیکر اب تک ناروے میں اردو لٹریچر کی اشاعت کا کام بھی بڑے منظم طریقے سے کرتے رہے – بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا کہ ناروے کی تاریخ میں اردو پرنٹنگ کی ترویج کے وہ پہلے پبلشر تھے – ناروے میں شروع کے اردو میں مذہبی ، سیاسی ، سماجی رسائل و جرائد حسن پرنٹر میں ہی چھپتے تھے – بلکہ اگر آپ 80 ، 90 کی دھائی میں مذہبی ، سماجی ، سیاسی تنظیموں کے بینرز ، اشتہارات بھی انہی کے ہاتھوں سے پرنٹ ہوئے ملیں گے –
کھیلوں اور اپنے کاروبار کے علاوہ وہ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے – چاچا حسن اختر صاحب ناروے کی سب سے بڑی مذہبی تنظیم جماعت اہلسنت کے بانی ارکان میں سے تھے – انہوں نے جماعت اہلسنت کے لٹریچر کی اشاعت کی فروغ میں بڑا اہم کردار ادا کیا -80 کی دھائی میں جماعت اہلسنت کا چھپنے والا ماہانہ رسالہ ترجمان اسلام انہی کی پرنٹنگ پریس سے اشاعت ہوتا تھا –
مذہبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے ساتھ ساتھ چاچا حسن اختر صاحب بہت اچھے نعت خواں بھی تھے – حسن اختر صاحب کے آئیڈیل نعت خواں مرحوم اعظم چشتی تھی اور وہ انہی کی طرح نعت پڑھتے تھے – کوئی بھی نجی محفل ہو ، یا باقاعدہ کوئی تقریب ہو جس میں وہ موجود ہوں تو منتظمین ان سے نعت سنے بغیر ان کو تقریب سے جانے نہیں دیتے تھے –
رشتہ داری ہونے کے ساتھ میرا ان کے ساتھ گہرا تعلق تھا- میں نے اور چاچا حسن اختر صاحب نے ایک بزنس پروجیکٹ پر اکٹھے کام کیا تھا – ہم دونوں نے اس سلسلے میں روس ، پرتگال، دوبئی ، افریقہ کے ملک انگولا اور پاکستان کے اکٹھے دورے کیے – دوران سفر حسن اختر صاحب کو سمجھنے کا کافی موقع ملا – حسن اختر صاحب کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ وہ جو بھی کام کرتے تو دل لگی اور فوکس ہوکر کرتے – کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اس کی مکمل تحقیق کرتے ، کام شروع کرنے کے بعد پھر اپنے معاشی وسائل کو بے خطر ، بے دریغ طریقے سے خرچ کرتے – جو ذمہ داری ان کو سونپی جاتی اس کو وہ وقت سے پہلے ختم کرتے – بیرون ممالک کے سفر کے دوران ان ممالک کے مقامی لوگوں کا رہن سہن ، ملنا جلنا، ٹورسٹ کے ساتھ رویوں کا بخوبی مشاہدہ کرتے اور پھر اپنے مخصوص پٹھواری زبان میں اس کا ذکر اپنے عزیز و اقارب میں کرتے – پاکستان میں انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کرنے اور نارویجین ٹکینکل کالج سے پروفیشنل ڈپلومہ حاصل کرنے کی وجہ سے ان کو اردو اور نارویجین زبان پر مکمل عبور حاصل تھا- ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران اکثر مقامی نارویجین گاہک اور جاننے والے انہیں مقامی باشندہ سمجھتے ، کیونکہ وہ نارویجین مکمل طور پر مقامی باشندوں کی طرح بولتے تھے – ارود اور نارویجین اخبارات و رسائل کے مطالعہ روزانہ کی بنیاد پر کرتے -کبھی کبھار موڈ میں ہوں تو اردو میں آرٹیکل بھی مقامی رسائل میں لکھتے رہے – قدرتی طورپر ذہین ہونے ، ٹکینکل رحجان کی وجہ ٹیکنالوجی کے نئے علوم کو جلد سیکھ لیتے اور پھر اس نئے علم کو اپنے پرنٹنگ بزنس میں بخوبی استعمال کرتے ، جس سے انہوں نے تھوڑے ہی وقت میں پرنٹنگ کاروبار میں خوب ترقی پائی – معاشی طور پر آسودہ ہونے کی وجہ سے وہ مسلمانوں کی مذہبی تنظیموں ، پاکستان میں کسی قدرتی آفت میں ہمشیہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور کھل کر ان کی معاشی طور پر مدد کرتے –
حسن اختر صاحب نے بھرپور زندگی گذاری، صرف ایک گلہ وہ ضرور کرتے ہوتے تھے کہ اگر وہ پاکستان میں رہتے تو انہوں نے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں تعلیم حاصل کرکے وزرات خارجہ میں کام کرنا تھا – لیکن قسمت انہیں نوجوانی میں یورپ لے آئی – امور خارجہ کے امور پر دلچسپی کی وجہ سے وہ شروع سے بی بی سی ، وائیس آف امریکہ، وائیس آف جرمنی ریڈیو کی نشریات روزانہ سنتے تھے –
پچھلے چند سالوں میں وہ موذی مرض سرطان کے شکار ہوئے ، جس کی وجہ سے ان کے سر کا آپریشن ہوا، آپریشن کے بعد حسن اختر صاحب کافی بہتر محسوس کررہے تھے – لیکن 2 ماہ پہلے اچانک ان کو نجی معاملات حل کرنے کے لیے انگلینڈ جانا پڑ گیا – چند دن انگلینڈ میں رہنے کے بعد جب وہ واپس ناروے آئے تو انگلینڈ میں کورونا وائرس کی پھیلاؤ کی وجہ سے ان کا کورونا ٹسٹ پازیٹیو آیا- جس سے ان کو ناروے میں ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہونا پڑگیا- جیسے ہی وہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہوئے ان کو سانس لینے میں مشکلات ہونے لگی ، سانس کو صحیح طریقے سے رواں رکھنے کے لیے ان کو وینٹی لیٹر لگا دیا- پھر حسن اختر صاحب پچھلے 6 ، 7 ہفتوں میں سانس کو کور کرنے اور کورونا سے لڑتے ہوئے بالآخر 26 دسمبر دن 1 بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے – ان کی وفات سے ناروے کے سماجی ، مذہبی حلقے ایک بہترین آواز والے نعت خواں اور عزیز و اقارب ایک مخلص ساتھی ، درمند سماجی شخصیت سے محروم ہوگئے –
موت کو سمجھا ہے ناداں اختتام زندگی –
ہے یہ شامِ زندگی صبح دوامِ زندگی –
بادشاہوں کی بھی کشتِ عمر کا حاصل ہے گور-
جادہٗ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور –